پرنٹنگ اور
صحافت سے ہٹ کر بھی سردارامتیاز صاحب ایک علمی اور ادبی شخصیت ہیں۔وہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،مولانا عبیداللہ سندھی اور دیگر اکابرین دین سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔اسی بنا پر انھوں نے اپنے بیٹے کا نام بھی عبیداللہ سندھی رکھا۔اب ان کے نئے دفتر جو سابقہ ناز سینما کے بالمقابل گلفشاں جیولرز والی گلی میں واقع ہے وہاں ان کا انسٹی ٹیوٹ بھی ہے وہاں جانے کا اتفاق ہوتو آپ کو مولانا عبیداللہ سندھی کی ایک بڑی سی پوٹریٹ دیکھنے کو ملے گی جو ان کی ان عظیم شخصیات سے محبت کی عکاسی کرتی ہے۔وہ 2007سے کوشش کررہے تھے کہ مجھے اصل اسلام سے متعارف کروایں مگر میں ہمیشہ اپنے علمی اور صحافتی زعم میں ہی رہا۔وہ اکثر مجھے جھوٹا صحافی بھی کہتے اس پر مجھے غصے بھی بڑا آتا کہ میں اتنا پڑھا لکھا۔ایک قومی معیار کا صحافی بھی ہوں مگر اس کے بعد باوجود مجھے جھوٹا صحافی کہتے ہیں،یہ تو بعد میں سمجھ آئی کہ ابو جہل جو مکے کا سب سے پڑھا لکھا شخص تھا اور اس کو لوگ ابو الحکم یعنی حکمت کا باپ کہتے تھے مگر اسلام نے اس کو ابوجہل کا خطاب اس لیے دیا کہ وہ حق کو سامنے دیکھ کر اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔وہ بڑی کوشش کرتے رہے مجھے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شیخ الہند، مولانا عبیداللہ سندھی جیسے اکابرین کے نظریات سے متعارف کروایں۔2007سے لیکر 2017تک ان کی کوششوں کے بعد بالاخر مجھے وہ ان عظیم شخصیات سے متعارف کروانے میں کامیاب ہوگئے۔اصل میں جھوٹ اور پروپگنڈے کیے ذریعے تحریک آزادی کے لیے اصل میں قربانیاں دینی والے شخصیات کے حوالے سے قوم کو لاعلم رکھا گیا اور بعض شخصیا ت کو تو غدار اور کافر قرار دے کر کئی نسلوں کو اس لاعلم اور بے خبر رکھا گیا۔کئی ماہ کی تربیت کے بعد جب میں اصل اسلام اور دین کے اصل اکابرین سے متعارف ہوا تو شخصیت پرستی کا خول مجھ سے اتر گیا اور حقائق کو تعصب کی عینک اتار کر دیکھا تو پاکستان کے اصل مسائل اور ان مسائل کی وجوہات اور جڑ سمجھنے لگے پھر انھوں نے بتایا کہ آپ کو جھوٹا صحافی اس لیے کہتے تھے کہ آپ کو ساری زندگی جھوٹ ہی پڑھایا گیا تھا اور اصل حقائق سے آپ بے خبر تھے۔اس کے بعد انھوں نے مجھے عربی گرائمر اور کالم نگاری کا خصوصی کورس بھی کروایا۔اب جو کچھ میری شخصیت کے اندر موجود ہے وہ ان کی تربیت کا نتیجہ ہے باقی جو کمی،کوتاہیاں ہیں وہ میر ی وجہ سے ہیں۔ پرنٹاس پرنٹنگ پریس اور پرنٹاس انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائنگ کو 25سال مکمل ہوچکے ہیں۔اس دوران 19000کے قریب ان کے شاگرد جو اندرو ن اور بیرون ملک ڈیزائنگ کے علاوہ
میڈیا انڈسٹری میں موجود ہیں۔کچھ ان کے شاگرد اینکر پرسن بھی ہیں۔اگر کوئی شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ معاشرے کے لیے ایک بیکار عضو ہے تو اس کو فوری پرنٹاس انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائنگ میں داخلہ لے کر تمام کورس مکمل کرناچاہیں بلکہ امتیاز صاحب کی نگرانی میں تربیت کی تمام منازل طے کرنی چاہیے۔انشاء اللہ وہ دنیا او ر آخرت میں مایوس نہیں ہوگا۔
0 Comments