معیارِ حکمرانی


 

 

اس وقت ہمارے معاشرے کا اور ملک کا جو سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور ہمارے ملک میں سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا سے لیکر عام عوامی اجتماعات میں زیر بحث ہے وہ ہمارا حکمران طبقہ یا ہمارے حکمران ہیں، عوام میں اس وقت دو بڑے گروہ بن چکے ہیں اور عوام ان دو گرپوں میں تقسیم ہوچکی ہے ایک حکمرانوں کی حمایت میں ہے اور دوسرا حکمرانوں کی مخالفت میں ہے یہی دو بڑے گرہوں مختلف سیاسی، مذہبی جماعتوں کی شکل میں ایک دوسرے پر ہدف تنقید کررہے ہیں،کوئی ایک حکمرانوں کو لعن طعن کررہا ہے تو دوسرا انکی حمایت اور تعریف میں مصروف ہے۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اختتام کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی تبدیلی کو موقع ملا انھوں نے ساڑھے تین سال کا عرصہ لگایا مگر ان کے جو تبدیلی کے دعوے تھے کہ عام آدمی زندگی میں بہتر لائیں گے و ہ ممکن نہ ہوسکا بلکہ عام آدمی کی زندگی کامعیار مزید پست ہوتا چلا گیا۔مہنگائی نے عام آدمی کو پیس کر رکھا دیا اس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گی اور پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور پی ٹی آئی کی حکومت کو گھر جانا پڑا۔اس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کو حکومت کرنے کا موقع ملا مگر وہ بھی معاشی اور سیاسی معاملات پر اپنی گرفت مضبوط نہ کرسکے۔اس کے نتیجے میں سیاسی افراتفری،معیشت کی بدحالی، مہنگائی، بے روزگاری ایک عام پاکستانی کی زندگی میں مزید مشکلات لے کر آئی اور وہ جماعت جو تجربہ کار ٹیم رکھنے کے دعوے کر رہی تھی وہ بھی ناکام ہوئی،پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا حد تک اضافہ ہوا۔ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔آئی ایم ایف سے ڈیل کے بعد بھی ڈالر کی قیمت نیچے نہیں آرہی۔اگر اس تمام صورتحال کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو ہمیں دو باتیں سمجھ آتی ہیں اور وہ دو باتیں کسی بھی حکمران کے لیے معیار حکمرانی کے سب سے بڑے اصول بھی ہیں۔ معیار ِحکمرانی کے لیے جو دو اور سب سے اہم اصول سمجھے جاتے ہیں ان میں ایک حکمران کا باصلاحیت ہونا اور دوسرا اس عوام اور ملک کے ساتھ مخلص ہونا ضروری ہے۔باصلاحیت سے کیا مراد ہے آئیے اس پر تھوڑی روشنی ڈالتے ہیں۔باصلاحیت سے مراد ایسا شخص جو تمام امور کو حسن تدبیر سے بخوبی سرانجام دے سکے،مثال کے طور پر ایک طالب علم ہے، وہ پڑھنے کے وقت پڑھتا ہے، وہ کھیلنے کے وقت کھیلتا ہے دوستوں کو ملنے کے وقت ملتا ہے اور سونے کے وقت سوتا ہے،نماز کے اوقات میں نماز پڑھتا ہے یعنی کے مادی اور روحانی تقاضوں کو ان کے مقررہ کردہ اوقات میں بخوبی سرانجام دیتا ہے اس کو ہم باصلاحیت طالب علم کہیں گے۔لیکن اس کے برعکس وہ پڑھنے کے وقت سوتا ہے، اور سونے کے وقت دوستوں سے ملنے چلا جاتا ہے، جب دوستوں سے ملنے یا کھیلنے کا وقت ہو تو نماز پڑھنے چلے جائے یعنی کہ ہر کام کے مقرر کردہ ترتیب کو الٹ کر رکھ دے اس کو ہم باصلاحیت طالب علم نہیں قرار دے سکتے،اس طرح ایک کاروباری ادارے یا کمپنی میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اس شخص کو بنایا جاتا ہے جو باصلاحیت ہو اور اس کو تما م شعبوں کا کچھ نہ کچھ تجربہ ہو یا وہ ان کے بارے میں بخوبی علم ہے تاکہ وہ ماتحت ملازمین سے کام لے سکے یا اگر کوئی ماتحت کسی شعبے میں گربڑ کرے یا مسائل پید ا کرے تو اس کو کنٹرول کرسکے یا اس کا حل کرسکے تاکہ ادارے یا کمپنی کا کام چلتا رہے۔ اسی طرح حکمران یا وزیر اعظم کے لیے ضروری ہے کہ وہ باصلاحیت ہو اس کی کابینہ میں جتنی بھی وزارتیں یا شعبے ہو اس کے بارے میں وہ مکمل علم رکھتا ہو اس کو اس بات کا ادراک ہو کہ فلاں وزیر اس وزار ت کا بہتر طور پر چلا سکتا ہے، اور فلاں شخص میں اس شعبے کو اتنی اہلیت ہے کہ وہ بہتر انداز میں اس شعبے میں کام کرسکتا ہے،اگر کوئی وزارت یا شعبے کے وزرا ء یا افراد مسائل پیدا کریں تو وہ ان کو بخوبی کنٹرول کرسکے اور ہر قسم کی بحرانی صورتحال میں بہتر انداز میں حکومت کا چلا سکے،ایک حکمران کو بے صلاحیت نہیں ہونا چاہیے کہ اس کو وزراء اور دیگرافراد دھوکہ دے سکیں، آج بھی اگر دنیا کے کامیاب حکمرانوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ باصلاحیت نظر آئیں گے جو اپنے ملک اور عوام کے ہر مسئلے سے آگاہ ہوں گے اور ان کو حل کرنے کے بھرپور صلاحیت رکھتے ہوں گے۔حکمرانی کے لیے دوسری بڑی شرط حکمران کا اپنے ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہونا ہے، مخلص سے مراد اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر مخلوق کے لیے حسن تدابیر سے امور سرانجام دینا ہے یعنی کہ وہ اپنے ذاتی مفادات حاصل نہ کرے اور اس کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہو۔یہ نہیں کہ وہ عوام کو مسائل کی دلدل میں دھکیل کر خود اپنے خزانے بھرنے میں مصروف رہے۔ایسے حکمران ہر گز کسی ملک یا ریاست کے ساتھ مخلص نہیں ہوسکتے جو حکمرانی تو پاکستان میں کریں اور ان کے کاروبار اورجائیدادیں بیرون ملک ہوں یا ان کی اولادیں پاکستان سے باہر رہتی ہوں۔اگر کاروبار اور اولاد کی پرورش کے لیے یہ ملک سازگار نہیں تو پھر ایسے لوگ پاکستان کے ساتھ کیسے مخلص ہوسکتے۔اگر ہم برصغیر کی تاریخ کی طرف نظر دوڑائیں تو ہم نظر آئے گا کہ مغل حکمرانو ں کا یہ اصل وطن نہ تھا۔ظہیر الدین بابر اس ملک پر حملہ آور ہوا مگر جب وہ اس ملک کا حکمران بن گیا تو اس کا جینا مرنا اس وطن کے ساتھ ہوا اس کے بعد اس کی نسلیں اس ملک میں رہیں اور ان کی قبریں اس مٹی میں بنیں،اس کے مقابل انگریز بھی اس ملک میں تاجروں کے روپ میں کاروبار کی غرض سے آئے او ر دھوکہ،فراڈ سے یہاں کے حکمران بن گئے مگر ان کی حکمرانی کا مقصد یہاں کی عوام کے ساتھ مخلص ہونا نہ تھا بلکہ یہاں کی دولت لوٹ کر اپنے ملک برطانیہ لے جانا تھا۔ا ن کی اولادیں بھی اپنے ملک میں رہیں اور یہاں کی دولت لوٹنے کے بعد وہ یہاں سے اپنے ملک چلے گئے اور سونے کی چڑیا کو تباہ و بربادکرگئے۔اس لیے کسی حکمران کے لیے باصلاحیت ہوا اور اس ملک کے عوام اور ریاست کے ساتھ مخلص ہونا بہت ضروری ہے۔اگر ان دو معیارات کو سامنے رکھ حکمران کا انتخاب کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ملک ترقی نہ کرے۔ہم اپنے کسی کاروباری ادارے میں نوکری دیتے یا کسی ملازم کو ترقی دیتے وقت اس کی صلاحیتوں اور مہارت کو مدنظر رکھتے ہیں کہ وہ کا اہل ہے بھی یا نہیں اور وہ کمپنی یا ادارے کے ساتھ کتنا مخلص ہے مگر اپنا حکمران چنتے وقت اس اصول کو بھول کیوں جاتے ہیں۔

              

Post a Comment

0 Comments