اصول کی روح


 دنیامیں ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ کوئی بھی اصول جو اچھا ہو یا فائدہ مند ہو اس سے پہلے کے لوگوں کو فائدہ پہنچا ہو۔تو اس کو اپنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اگر اس پر کسی وجہ سے عمل نہ کرسکیں تو اپنی گفتگو میں، اپنی تحریروں میں، تقریروں میں اس کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔ہمارا اس اصول کے ساتھ پسندیدگی یا محبت ہوتی ہے۔یہ اصول کبھی اقوال، اقوال زریں،اور دوسرے ناموں کے ساتھ پکارے جاتے ہیں اور جس شخصیت کے اقول یا اصول اک زکر کرتے ہیں دراصل ہم اس شخصیت کی فہم وفراست اور حسن تدابیر کے قائل ہوتے ہیں اور وہ شخصیت کوئی مفکر بھی ہوسکتا، کوئی سائنس دان، کوئی بادشاہ، کوئی ولی، کوئی جرنیل غرض کوئی بھی شخصیت جس نے اپنے میدان میں عروج حاصل کیا ہو۔

ہر مذہب کے ماننے والے اپنے پیغمبروں، اولیاء اور مذہبی شخصیات کی بہت عزت کرتے ہیں اور انکی پیروی کوشش کرتے ہیں۔ہر مذہب کی اپنی تاریخ ہوتی ہے اور یہ مذاہب زمانہ قدیم سے اس قوم کے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں،اس مذہب کے پیروکاروں کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مذہبی قائدین کی پیروی کریں اور ان کے اصولوں کی اتباع کی جائے،بات اصولوں کے مطابق عمل کرنے کی کوشش تک تو ٹھیک رہتی ہے کہ جب وہ اس اصول کے تحت اپنے زمانے کے معروضی حالات کے مطابق عمل کرتے ہیں اس اصول کے تحت جو فوائد اس عمل میں ہوتے ہیں ان کو حاصل ہوجاتے ہیں مگر صورتحال اس وقت خراب ہوجاتی ہے جب وہ اس اصول کو من و عن اس کی ظاہری حالت میں جیسا وہ ہزار یا دو یا پانچ ہزار سال قبل اس زمانے کے معروضی حالات کے مطابق سرانجام پایا تھا ویسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔اس اصول کے فوائدمیں کوئی شک نہیں ہوتا بلکہ اس اصول سے جو مطلوبہ نتائج زمانہ قدیم میں حاصل کیے جاتے رہے ہیں وہ حاصل ہونگے مگر ہمیں اس اصول کی روح کو مدنظر رکھ کر اپنے زمانے کے متقاضی اصولوں اور معروضی حالات کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔مثال کے طور ر ایک اصول کسی انتہائی گرم علاقے یا ملک کے لیے تھا تاکہ اس گرم آب ہوا کے ملک میں اس سے مطلوبہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔اب ہم اگر اس اصول پر سرد علاقوں میں من و عن اس کی ظاہری حالت میں عمل کرنے کی کوشش کریں تو اس کے نتائج الٹ بھی سکتے ہیں اس پر ہم اس اصول کو یا وہ اصول مرتب یا بنانے والے شخصیات کو برا بھلا نہیں کہیں گے یا اس پرشک نہیں کریں گے بلکہ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اس اصول کی روح کا جائزہ لیں اور اس کے ظاہری افعال اور ظاہری حالت کو دیکھیں تو وہ اصول یا بات ہمارے لیے کسی صورت نقصان دہ نہیں ہوسکتی۔
قدیم زمانے میں سفر کرنے کے لیے گھوڑوں کا استعمال ہوتا تھا۔گھوڑے اس زمانے کے برق رفتار سمجھے جاتے تھے اور سفر جلدی طے ہوجاتا تھا اس کے مقابلے میں ریگستان میں سفر کرنے کے لیے اونٹ استعمال ہوتے کیونکہ اونٹ ریگستان میں آسانی سے سفر کرسکتا ہے۔جبکہ گھوڑے کے لیے ریت پر چلنا مشکل ہوتا ہے۔اب اگر وہ لوگ اونٹ کی جگہ گھوڑوں کو ریگستان میں سفر کے لیے استعمال کرتے کہ گھوڑا میدان میں برق رفتاری سے سفر کرتا ہے لہذا ریگستان میں بھی اس رفتار سے سفر کرسکے گا تو ان کے لے مشکل ہوجاتا۔اب یہ سفر کا اصول تھا کہ برق رفتار یا تیز چلنے والے جانور استعمال کیا جائے تاکہ سفر جلدی کٹ سکے۔ان کا مقصد سفر کرنا تھا نہ جس کے زریعے وہ سفر کررہے تھے اس کی ظاہری حالت کو دیکھنا یا وہ جانور زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔اس اصول میں سفر کرنا اس کی روح ہے جبکہ اونٹ،گھوڑا یا جس کے زریعے وہ سفر کرتے وہ اس ظاہری حالت تھی۔معاملات وہیں خراب ہوتے ہیں جہاں ہم اصول کی روح کے بجائے اس کی ظاہری حالت پر عمل کرنے کی زیادہ کوشش کرتے ہیں اب تو انسانوں نے مزید ترقی کرلی ہے سفر کے لیے کاریں، موٹریں استعمال ہورہی ہیں اب ہم کاروں، موٹروں کی جگہ گھوڑے کے استعمال کی کوشش کریں کہ وہ ہمارے آباؤ اجداد استعمال کرتے تھے اور ان کے زمانے میں گھوڑے سفر کے لیے زیادہ موزوں تھے تو دنیا ہم پر ہنسے گی اور یہ بات آج کے حالات میں سفر کے اصول کے خلاف ہوگا،کیونکہ گھوڑوں کا استعمال اس دور کے معروضی حالات کے مطابق تھا اور جبکہ کار،موٹر کا استعمال آج کے معروضی حالات کے مطابق ہے۔جب ہم اصول کے قدیم ظاہری افعال سے جڑیں رہیں گے اور اس کو زمانہ قدیم کی ظاہری حالت کے مطابق اپنانے کی کوشش کریں گے تو دنیا ہمیں بنیاد پرست ہی کہے گی کیونکہ ہم نے اصول کی روح کو چھوڑ دیا اور اس کی بنیادوں میں جو ظاہری حالت ہے اس کو پکڑ لیا۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا تھا۔
”زمانے کی گردش اگرچہ عجیب امر ہے مگر اس سے غفلت عجیب تر ہے۔“
قراں پاک میں آتا ہے۔
کُلَّ یَوْمَ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ
قدرت ہر لحظہ نئے رنگ اختیار کرتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments