مرغے سے شروع ہونے والی کہانی




 عربی حکایت ہے ایک بُوڑھے شیخ کو اپنا ایک مُرغا بہت پیارا تھا۔ اچانک ایک دِن وہ چوری ہو گیا۔ اُسنے اپنے نوکر چاکر بٙھگائے، پُورا قبیلہ چھان مارا مگر مُرغا نہیں مِلا۔ مُلازموں نے کہا کہ مُرغے کو کوئی جانور کھا گیا ہو گا۔ بُوڑھے شیخ نے مُرغے کے پٙر اور کھال ڈھونڈنے کا حُکم دِیا۔ مُلازم حیران ہو کر ڈھونڈنے نِکل پڑے مگر بے سُود۔ شیخ نے ایک اونٹ ذِبح کِیا اور پُورے قبیلے کے عٙمائدین کی دعوت کر ڈالی۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہُوئے تو شیخ نے اُن سے اپنا مُرغا گُم ہونے کے بارے میں ذِکر کِیا اور اُن سے اُسے ڈُھونڈھنے میں مدد کی درخواست کی۔ کُچھ زیرِ لٙب مُسکرائے، کُچھ نے بُوڑھے کو خٙبطی سٙمجھا۔مگر وعدہ کِیا کہ کوشش کریں گے۔ باہر نِکل کر مُرغے کی تلاش پر اُونٹ ذِبح کرنے پر خوب گٙپ شٙپ ہُوئی۔ کُچھ دِن بعد قبیلہ سے بٙکری چوری ہُو گئی۔ غریب آدمی کی تھی، وہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر خاموش ہو گیا۔ شیخ کے عِلم میں جب یہ بات آئی تو اُس نے پِھر ایک اونٹ ذِبح کِیا اور دعوت کر ڈالی۔ جب لوگ کھانے سے فارغ ہُوئے تو اس نے پِھر مُرغے کی تلاش اور بکری کا قِصہ چھیڑا اور قبیلے سے کہا کہ اُس کا مُرغا ڈھونڈ دیں۔ اب تو کُچھ نے اُسے بُرا بٙھلا کہا۔ کُچھ نے اُسے دِلاسہ دِیا کہ اِتنی بڑی بات نہیں، صبر کر لو اِس سے زیادہ اپنا نُقصان کر چُکے ہو۔ ابھی تین دِن ہی گُذرے تھے کہ ایک اور شیخ کا اونٹ رات کو اُس کے گھر کے سامنے سے چوری ہو گیا۔ اُس شیخ نے اپنے مُلازمین کو خوب بُرا بٙھلا کہا اور خاموش ہو گیا کہ ایک اونٹ اُسکے لِئے کوئی مالی وُقعت نہی رکھتا تھا۔ بُوڑھے شیخ کو جب عِلم ہُوا تو اُس نے پِھر ایک اونٹ ذِبح کِیا اور قبیلے کی دعوت کر دی۔ سب کھانے سے جب فارغ ہُوئے تو اُس نے سٙرسٙری اونٹ گُم ہونے کا ذِکر کر کے اپنے مُرغے کو یاد کِیا اور قبیلے سے اِلتجا کی کہ اُسکا مُرغا ڈھونڈ دیں۔ اب تو محفل میں خوب گرما گرمی ہُوئی اور بُوڑھے سے کہا گیا کہ اب اگر دوبارہ اُسنے مُرغے سے مُتعلق کوئی بات کی تو پُورا قبیلہ اُس سے قٙطع تٙعلق کر لے گا۔ شیخ کے بیٹوں نے بھی باپ کی اِس حرکت پر مہمانوں کو رُخصت کرتے ہُوئے مٙعذرت خواہانہ رٙوّیہ اِختیار کِیا اور شٙرمِندہ بھی ہُوئے کہ ایک مُرغے کے بدلے تین اونٹ اور شٙرمِندگی علیحدہ۔ یقینا اُن کا باپ اب سٙٹھیا گیا ہے۔ پندرہ روز گُذرے تو قبیلے کی ایک لڑکی کُنویں سے پانی بٙھرنے گئی اور پِھر واپس نہیں آئی۔ گاوں میں کُہرام مٙچ گیا۔ پُورے قبیلے کی عِزت داو پر لگ گئی۔ نوجوانوں نے جٙھتے بنائے اور تلاش شُروع کی۔ پہلے گاوں پِھر اِردگِرد پِھر مٙزید گاوں کے لوگ شامِل ہُوئے اور اِرد گِرد کے گاوں سے مٙعلومات کی گئیں تو پتہ چلا کہ کُچھ ڈاکو قریب پہاڑ کی ایک غار میں کُچھ عرصے سے رہ رہے ہیں۔ گاوں کے لوگوں نے چھاپہ مارا۔ وہاں لڑائی ہُوئی، اٙموات ہُوئیں اور لڑکی برآمد کر لی گئی۔ لوگوں نے وہاں اونٹ، بکری اور مُرغے کی باقیات بھی ڈھونڈ لیں۔ تب اُنہیں اِحساس ہُوا کہ بُوڑھا شیخ کِس طُوفان کے آنے کا اُنہیں عِندیہ دے رہا تھا۔ اگر گاوں کے لوگ مُرغے پر ہی مُتحد ہو جاتے تو آبرو تک بات نہ پُہنچتی، اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے ایک شخص سویا ہوا تھا اس کے اوپر سے چوہا گزر گیا ۔اس نے اٹھ کر بہت شور مچایا ۔سب نے سمجھایا کہ کیا ہوا ایک چوہا ہی تمھارے اوپر سے گزرا ہے ۔اس نے تمھیں کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا ۔اب چپ کر جاو،اس نے جواب دیا مسئلہ یہ نہیں کہ میں سویا ہوا تھا اور میرے اوپر سے چوہا گزر گیا ۔مسئلہ یہ ہے کہ آج چوہا گزرا ہے ، کل بلی گزر گی، پرسوں کتا گزرے گا۔اس کے بعد اونٹ گزرے گا۔اس طرح یہ میرے اوپر سے گزرنے کے لیے راستہ ہی بنا لیں گے ۔مجھے آج ہی اس سلسلے کو روکنا ہوگا ورنہ کل میرے لیے وہ مسائل پیدا ہونگے جو حل نہیں ہوسکیں گے،

موجودہ دور میں کاروبار کے لیے کمپنی بنانا لازمی ہے اس کے بغیر آپ بڑے پیمانے پر کاروبار نہیں کرسکتے ۔کمپنی کو چلانے کے لیے ایک نظام ہوتا ہے ۔کمپنی کے اندر فرد واحد یا شخصیت کا عمل دخل مالکیت کی حد تک تو ہوتاہے مگر اس کو چلانے کے لیے ایک نظام یا سسٹم بہت ضروری ہوتا ہے .ہم بڑے کاروباری اداروں‌کا جائزہ لیں‌تو ہمیں اس میں سسٹم ہی نظر آئے گا.اگر ایک چھوٹے یا بڑے کاروباری ادارےکو چلانے کے لیے ایک نظام یا سسٹم کتنی اہمیت کا حامل ہےتو ایک ملک یا ریاست کے لیے اس کی اہمیت کتنی ہوگی ،ہمارے آج کے سیاسیات (پولیٹیکل سائنس ) اور دیگر شعبوں‌کے طالب علم کو یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے .موجودہ دور نظاموں
اور سسٹم کا دور ہے اور اس میں شخصیات کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے پھر بھی ہم سسٹم کو نظر انداز کرکے شخصیات کی طرف ہی توجہ دیں تو ہمارے مسائل کبھی حل نہیں‌ہوسکتے .انگریز اس ملک سے چلا گیا مگر وہ اپنا نظام یہاں‌پر چھوڑ گیا .
اگر ہم پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ان مسائل پر توجہ دیتے تو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا .پاکستان کےپہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو سرعام گولی مار کر قتل کردیا گیا اور ان کے اصل قاتلوں کا سراغ نہ مل سکا.ان کے قتل کے پیچھے یہی نظام تھا جس نے پچھلے پچھتر سالوں سے اس ملک کو ترقی کرنے نہیں‌دی.اگر ہم ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے اصل قاتلوں‌کو سزا دیتے تو پھر اس کے بعد کسی اور کو جرآت ہی نہ ہوتی کہ اس ملک کو ان حالات تک پہنچا سکتا مگراس قبیلے والے کی طرح‌ جو اس بوڑھے شیخ کا مذاق اڑاتے جو اپنے مرغے کی گمشدگی کی بات کرتا .اس ملک میں‌ لیاقت علی خان قاتلوں‌کی بات کرنے والوں مذاق اڑایا جاتا .اس کے بعد ملک دو لخت ہوا.ایک سابق خاتون وزیر اعظم کو سرعام گولی ماری گئی .نااہلی اور مس منجیمنٹ کی وجہ زلزلوں ، سیلاب اور دہشت گردی میں لاکھوں انسان مارے گئے مگر ہم آج بھی صرف شخصیات سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں .

Post a Comment

0 Comments