کرپشن کا آسان حل


 پاکستان کی اشرافیہ یا کسی حکمران سے پاکستان کا سب سے بڑا مسٸلہ دریافت کریں تو مجھے یقین ہے وہ آنکھیں بند کر آبادی یا کرپشن کو سب سے بڑا مسٸلہ قرار دیں گے۔اگر ان سے اس کا حل دریافت کریں تو آبادی کی بڑی وجہ غریب کو قرار دیں گے کہ غریبوں کے بچے بہت زیادہ ہوتے ہیں اس لیے آبادی زیادہ ہے۔آبادی کے کنٹرول کے لیے محکمہ بہبود آبادی کام کر رہا اور کرپشن کے خاتمے کے لیے عجیب و غریب حل بتاٸیں گے۔ اگر یہ بات مان لیں کہ آبادی اور کرپشن پاکستان کے دو بڑے مسٸلے ہیں تو ان کے حل کا گہراٸی سے جاٸزہ لیتے ہیں۔ پہلے مسٸلے آبادی کی طرف آتے ہیں۔پاکستان کی آبادی اس وقت لگ بھگ چوبیس کروڑ ہے۔اتنی زیادہ آبادی ہونے کی وجہ سے تمام افراد کو خوراک اور رہاٸش کی کمی کا مسٸلہ درپیش رہتا ہے۔پاکستان کا رقبہ 796096 مربع کلومیٹر ہے۔اگر ایک مربع کلومیٹر سے دس مرلہ کے پلاٹ بناٸیں تو ایک مربع کلومیٹر سے چار ہزار پلاٹ بن سکتے ہیں۔اگر پاکستان کے ہر فرد چھوٹے بڑے مرد عورت کو ایک دس مرلے کا پلاٹ دیں تو کل رقبہ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر چاہیے۔بقیہ ساتھ لاکھ چھتیس ہزار مربع کلومیٹر کا رقبہ بچ جاتا ہے۔اس سات لاکھ چھیتیس ہزار مربع کلومیٹر میں سے دو لاکھ چھتیس ہزار مربع کلومیٹر کا رقبہ پہاڑوں ، دریا جنگل پر مشتمل ہو اور پوری آبادی کو دس مرلے کے پلاٹ دینے کے بعد بھی پانچ لاکھ مربع کلومیٹر کا رقبہ بچ جاتا ہے۔اگر پاکستان کے ہر فرد کو دس مرلے کا ایک پلاٹ دیا جاتا ہے تو پانچ مرلے پر اپنا گھر بنا سکتا ہے جبکہ پانچ مرلے پر تھوڑی کھیتی باڑی یا کچن گارڈننگ کرے تو چوبیس کروڑ لوگوں کے لیے خوراک کا مسٸلہ کسی حد تک کم ہوجاۓ۔ پاکستان میں یہ چوبیس کروڑ اکیلے نہیں رہتے بلکہ افراد خاندان کی شکل میں رہتے ہیں۔اگر ایک خاندان کے افراد تقریبا چھ تصور کرلیں تو پاکستان میں تقریبا چار کروڑ خاندان ہونگے۔یوں ایک خاندان کے پاس دس مرلے کے چھ پلاٹ ہوسکتے ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اتنی آبادی کی رہاٸش اور خوراک کوٸی مسٸلہ نہیں بلکہ ان کو تعلیم و تربیت کے زریعے مفید شہری بنایا جاسکتا ہے جو چین کی طرح اس ملک کو سپر پاور بنا سکتے مگر مسٸلہ یہ ہے کہ جاگیرداروں،سرمایہ داروں نے یہاں کی زمینوں اور وساٸل پر قبضہ کر رکھا ہے ایک طرف تو وہ جاگیر دار ہیں جن کی زمینوں پر چار گھنٹے ریل چلتی رہے تو جاگیریں ختم نہیں ہوتی دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کو چھت تک میسر نہیں اور وہ کھلے آسمان تلے رات گزارنے پر مجبور ہیں۔ دوسرا اہم مسٸلہ کرپشن ہے پاکستان میں اس وقت سرمایہ داروں کو اثاثے بنانے کی کھلی چھٹی ہے آپ جتنا مرضی سرمایہ رکھ سکتے یا اثاثے بنا سکتے صرف تھوڑا سا حصہ دے دیں آپ کو کوٸی نہیں پوچھے گا۔اس ملک میں عزت کا معیار پیسہ ہے۔آپ جتنے اچھے ، شریف، بااخلاق ہوں لیکن آپ کے پاس سرمایہ نہیں ہے تو آپ کی معاشرے میں کوٸی عزت نہیں، ایک پولیس والا آپ کو بغیر کسی جرم کے جیل میں ڈال سکتااور خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے آپ کو سالوں لگ سکتے۔وہیں پر آپ کے پاس سرمایہ ہے تو آپ سے کسی نے یہ نہیں پوچھنا آپ یہ سرمایہ لاۓ کہاں سے ہیں۔جاٸز طریقے سے کمایا یا ناجاٸز زراٸع سے۔سب آپ کی انتہاٸی عزت کریں گے۔کسی محفل میں آپ چلیں جاٸیں تو آپ کے آگے پیچھے گھومیں گے۔آپ کو وی آٸی پی پروٹوکول دیں گے۔چاہے آپ کتنے بداخلاق، بدتمیز ہوں یا غیر قانونی دھندوں میں ملوث۔یہاں پر معیار صرف ایک پیسہ اور سرمایہ ہے۔ عام آدمی جب دیکھتا ہے کہ تمام تر اوصاف ہونے کے باوجود میری معاشرے میں کوٸی عزت نہیں جب تک میرے پاس سرمایہ نہیں تو وہ ہر جاٸز و ناجاٸز ذراٸع سے دولت کمانے کی کوشش کرتا تاکہ معاشرے میں اس کو بہتر مقام مل سکے۔ اگر آپ اس ملک میں کرپشن روکنا چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی حل ہے۔چوبیس کروڑ عوام کی بنیادی ضروریات جن میں روٹی ، کپڑا، مکان ، تعلیم ، صحت، روزگار،نکاح یہ ریاست پوری کریں پھر نجی مالکیت کی ایک حد مقرر کریں چاہے دس لاکھ ہو یا ایک کروڑ ۔ جب پاکستانيوں کے چوبیس کروڑ افراد اس مقرر کردہ حد کے قریب پہنچ جاٸیں تو اس حد کو بڑھا سکتے ہیں ۔لیکن یہ نہیں کہ ایک شخص تو اربوں کا مالک ہو اور بڑی تعداد میں آبادی روٹی سے بھی محروم ہو۔اتنا زیادہ فرق معاشرے میں کرپشن کو ہی جنم دیتا ہے۔ نجی مالکیت یا اثاثوں کی ایک حد مقرر کرنے کا فاٸدہ یہ ہوگا کہ مجرمانہ زہنیت کے افراد نے اگر کرپشن اور بدعنوانی کرنی بھی ہوٸی تو وہ ایک حد تک کریں گے کیونکہ اس حد سے زیادہ مال کمانے کا فاٸدہ نہیں ہم یہ سرمایہ رکھ ہی نہیں سکتے اور یہ ریاست لاجاۓ گی۔ کرپشن کو روکنے کا اس کے علاوہ اور کوٸی حل نہیں بے شک آپ دن رات وعظ کرتے رہیں۔

Post a Comment

0 Comments