What is System - نظام کیا ہے(1)

 نظام پتلے مگر باریک دھاگے کو کہتے ہیں جس میں موتیوں کو پرُو دیا گیا ہو۔اس میں دھاگہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی مضبوطی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا،دھاگہ اگر کمزور ہواور موتی چاہے جتنے بھی قیمتی او ر بیش قیمت ہوں وہ مالا ٹوٹ جا ئے گی اور مالا کے ٹوٹنے سے وہ موتی بھی بے قیمت ہوجائیں گے کیونکہ موتیوں کی تمام تر اہمیت اور قیمت اس مالا کے ساتھ جڑے رہنے میں تھی،دھاگہ اگر مضبوط ہواو ر موتی چاہے اتنے قیمتی نہ بھی ہوں تو بھی ا س مالااور موتیوں کی


قدو قیمت میں اضافہ ہوتا ہی رہے گا۔

  انسانی معاشرے میں دھاگے سے مراد سوچ،نیت،آئین ہے اور موتیوں سے مراد اس کے ادارے جیساکہ آج کے ترقی یافتہ جمہوری معاشرے میں مقننہ،عدلیہ او ر انتظامیہ اس کے موتی ہیں،اب جمہوریت کی یہ مالااسی قدر خوبصورت،قیمتی اور صاف شفاف ہوگی جس قدد اس مالا کا دھاگہ مضبوط،صحیح عدلانہ او ر جمہوری اصولوں کے مطابق ہوگا۔اس مالاکے موتی مقننہ،انتظامیہ،عدلیہ وہی کچھ کریں گے جس کا حکم یا دائر اختیار کا تعین اس مالا کا بنیاد ی دھاگہ یعنی وہ نظر یہ،سوچ یا آئیں کریں گے،اب ہم اس نظریہ،سوچ،آئین کو ظلم کے اصولو ں کے مطابق رکھ کر ان اداروں یا موتیوں سے عدل کی توقع رکھیں تو یہ ہمار ا قصور ہوگا۔اس میں ان موتیوں کی کیا غلطی ہوگی،حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مفہوم ہے کہ ”عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے“ جس طرح پیغمبر کو اپنے مقام اور کردار کی وجہ سے تمام انسانوں پر شرف حاصل ہوتا ہے اسی طرح سے پیغمبر کی بات بھی باتو ں کی پیغمبر ہوتی ہے،جب عمل کاتمام تر دارومدار نیت پرقرار دیا گیا تو عمل کی حیثیت ہی ختم ہوجاتی ہے جس طرح سے فقہاء بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص مسجد کے دروازے کے سامنے ایک کھونٹاٹھوکتا ہے کہ آنے والے مسافر اپنے جانور اس سے باندھ کر نماز اداکریں جبکہ یہ عمل ایک دوسرا شخص اس نیت کے ساتھ کرتا کہ مسجدمیں آنے والے مسافر اس سے ٹھوکر کھاکر گر پڑیں تو دونوں کے اعمال ایک جیسے ہونے کے باوجود دنوں کو اجر و ثواب اور گناہ اپنی اپنی نیت کے مطابق ملے گا۔جس نے اس نیت کے ساتھ وہ کھونٹا ٹھوکا تھا کہ اس مسافر اپنے جانور باندھ کر نماز اداکریں تو اگر کوئی اس ٹھوکر کھا کر گر بھی پڑے تو اس کو ثواب ملے گا،اور جس نے اس نیت کے ساتھ یہ کام کیا تھا کہ اس سے مسجد میں آنے والے نمازی ٹھوکر کھا کر گر پڑی تو اگر کوئی اس سے جانور بھی باندھے تو اس کو اس گنا ہ ملتا رہے گا کیونکہ اس کی نیت بری تھی،اسی طرح سے ایک شخص بیمار ہے اور کوئی اس کی تیمارداری کے لیے آتے وقت اس نیت سے بڑے اچھے اور خوبصورت سیب لے کر آتا ہے کہ مریض یہ کھائے گا تو اس کواس سے مزید تکلیف ہوگی،اب اگر مریض کو ان سیبوں کے کھانے سے تکلیف ہویا فائدہ لانے والے کے نامہ اعمال میں گناہ لکھ دیا جاتا ہے،اس کے مقابلہ میں ایک دوسراشخص سیب اس نیت سے لاتا ہے کہ مریض کی کمزوری ان سیبوں کے کھانے سے دور ہوگی اب چاہے مریض کو ان سیب کے کھانے سے تکلیف ہی کیوں نہ ہوجائے اس شخص کے نامہ اعمال میں ثواب اور اجر لکھ دیا جاتا ہے۔،دین اسلا م میں نماز کو بڑی اہمیت حاصل ہے قران پاک میں بار بار نماز کا ذکر آتا ہے اور نماز پڑھنے والے کو اجر و ثواب کی خوشخبری سنائی گئی ہے،ہیں پر سورۃ ماعون میں فرمایا گیا۔ہلاکت ہے ایسے نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں اور ریاکاری کرتے ہیں،یعنی جن کی نیت میں فتور ہوتا ہے وہ دکھلاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں ان کا مقصد اللہ کی عبادت نہیں بلکہ لوگوں کو دکھاناہوتا ہے،وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں میں نیک مشہور ہوجائیں۔ان آیات میں ایسی نماز پڑھنے والوں یا ایسے نمازیوں کے ہلاکت کا اعلان کیا گیا،نماز کا عمل تو بڑا پاکیزہ اور اجرو ثواب کا ہے۔مگر اس نیک عمل کے پیچھے اگر بری نیت ہوگی تو پھر یہ عمل بھی ضائع ہوجاتا ہے۔اگر نظام کی روح یا ا س آئین،نیت میں ہی خرابی اور برائی ہوگی تو اس کے آگے کے ادارے یا موتی جس قدر اچھے اور صاف شفاف ہوں وہ کھبی بھی بہترکام نہیں کرسکیں گے اور نہ عوام کو فائدہ پہنچا سکیں گے۔ظلم اگر نناوے فیصد بھی عدل کی طرف سرک جائے تو بھی وہ ظلم ہی رہتا ہے اور عدل اگر ایک فیصد بھی پیچھے ہٹ جائے تو وہ ظلم بن جاتا ہے کیونکہ ظلم شرک ہے اور اللہ تعالی ٰ کو نناوے فیصد رب مان کربھی اگر ایک فیصد کسی اور کو اس کے ساتھ شریک کیا جائے تو وہ شرک ہی رہتا ہے۔اللہ پر سو فیصد ایمان لاکر اس کو اپنا رب تسلیم کرنا اور دیگر تمام خداؤں سے لا یعنی انکار کرنے سے ہی ایمان مکمل ہوسکتا ہے۔دیگر خدا یا بت شخصیت پرستی کے بھی ہوسکتے ہیں اور نظام کے بھی،سب سے انکار لازمی ہے۔اسلام نے ہمیشہ نظام کا انکار کا حکم دیا ہے،شخصیت کی تو نظام کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے مکہ میں قائم اس ظلم کے نظام کا انکار کیا تھا،جس میں سرمایہ داروں کا ایک گروہ مکہ کے تمام وسائل پر قابض ہوکر لات،منات،عزہ کے نام پر غریب لوگو ں سے ٹیکس لیتے تھے،اس نظام میں ابو جہل اور ابو لہب کی حیثیت بس کارندوں کی سی تھی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی ابو جہل یا ابو لہب کی شخصیت کے ساتھ کوئی جنگ یا اختلاف نہ تھا،اگر جنگ تھی تو اس نظام کے ساتھ جو لوگوں کو غلام بنا کر اللہ کی واحدنیت کے اقرار سے روکتاتھا اور ان سے شرک جیسا گناہ کرواتا تھا۔اگر ابوجہل یا ابولہب کے ساتھ حضور اکرم  (صلى الله عليه وسلم) کی کوئی جنگ یا لڑائی ہوتی تو ان دونوں کے مرنے کے بعد تو (معاذاللہ) آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد رُک جاتی مگر چونکہ یہ تما م دنیا پر ظلم کے خاتمے اور عدل کے نظام کو قائم کرنے کی جنگ تھی اس وجہ سے ساری زندگی جاری رہی اور حضور اکرم ﷺکے دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد ان کے تربیت یافتہ ساتھیوں صحابہ کرام نے جاری رکھی،ظلم کے بڑے نمائندوں قیصر و کسری ٰ کی بادشاہت کا خاتمہ کرکے پہلے قومی سطح پر اورپھر بین القوامی عدل کا نظام قائم کیا،اگر صرف شخصیت کی بات ہوتی جس وقت حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نظام کا حصہ بننے اور مکہ کی سرداری کی دعوت دی گئی تھی تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبول کرلیتے مگر یہ نظام کے ساتھ جنگ تھی وہ نظام جو اللہ کی عبادت سے روکتا تھا،وسائل پر قابض ہوکر لوگوں کو اپنے سامنے جھکاتا تھا،اور ان سے شرک جیسا گناہ کرواتا تھا،مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نظام کا کلیتا  انکار کرکے کہا 

لکم دینکم ولی دین

تمھارے لیے تمھارا دین،میرے لیے میرا دین،دین کا لفظی مطلب زندگی گزارنے کا طریقہ،دین کو نظام بھی کہا جاتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نظام کا مکمل انکار کرکے اس کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی اور پھر اس کو تبدیل کرکے اس کی جگہ درست سیاسی نظام قائم کیا، جس میں تمام انسان برابر ہیں کا حکم دیا،خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،کسی کالے کو گورے پر،کسی گورے کو کالے پر،کسی عربی کو عجمی پر،کسی عجمی کو عربی پر کوئی برتری حاصل نہ ہے،برتری اگر حاصل ہے تو ہو تقوی ٰ کی بنیاد پر ہے -

Post a Comment

0 Comments