Change the System تبدیلی نظام کیوں(2)

   


 
 انسان ایک معاشرتی جانور  ہے اور معاشرے کے بغیراکیلا رہنا ایک انسان کے مشکل یا ناممکن امر بن جاتا ہے کیونکہ معاشرے میں رہ کر مل جل کر ایک دوسرے کے مسائل کو حل کیا جاتا ہے۔معاشرے میں رہنے والے ہر فرد پر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں اور اس کو کچھ حقوق حاصل ہوتے ہیں،معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کو ان حقوق و فرائض کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی پڑتی ہیں۔ان حقوق کے حصول یا فرائض کی ادائیگی میں کوئی فرد یا گروہ روکاوٹ بننے کی کوشش کرے تو معاشرے میں بگاڑ ہوتا ہے۔اس بگاڑ کوروکنے اور معاشرے کی ترقی کے لیے اس معاشرے میں ایک نظام کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔نظام کے بغیر معاشرہ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بن جاتا ہے جو ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی سب کچھ کرتی پھرتی ہیں یاجس کا جدھر منہ چاہے چل پڑتا ہے۔انسان کی ترقی ہویا معاشرے یا قوم کی اس کے لیے نظام انتہائی ضروری ہے،نظام معاشرے کے اندر ہر کسی کے حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے اوران تعین کردہ حدود سے تجاوز کرنے والے کو سزا دیتا ہے۔جدید جمہوری معاشروں میں نظام کے تحت قائم ہونے والے اداروں کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر اصل اہمیت اس آئین،نیت اور سوچ کی ہے جس پر وہ ادارے کھڑے ہوتے ہیں۔آئین کے اندر معاشرے کے افراد کو جو حقوق حاصل ہونگے یا ان کی جو ذمہ داریاں مقرر کی گئی ہونگیں تو ادارے (مقننہ۔عدلیہ۔ انتظامیہ) ان سے اسی حوالے سے بات کرسکیں گے یا مقرر کردہ حقوق و فرائض میں تجاوز یا کمی کی صورت میں ان کو سزا دے سکیں گے۔ آئین کے اندر ایک خاص طبقہ (اشرافیہ) کو تو لامحدود حقوق حاصل ہو ں اور دیگر طبقات کو محدود حقوق کے ساتھ لامحدود فرائض اداکرنے ہوں تو پھروہ ادارے بھی اس خاص طبقہ کے سامنے مجبور ہونگے۔ان میں قصور ان اداروں کا نہیں بلکہ اس سوچ یا آئین کے تحت اس خاص طبقے کو حاصل ہونے والے اختیارات اور حقوق ہیں۔اس کے مقابلہ میں آئین کے اندر یہ تحریر ہو کہ معاشرے اور ملک کے تمام افراد برابر ہیں۔کسی طبقے کو لامحدود نجی ملکیت کی اجازت نہیں ہوگی ایک خاص حد سے زیادہ دولت کوئی نہیں رکھ سکے گا کہ جس معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو اور بعد میں اس دولت کے زریعے ایک مخصوص طبقہ اقتدار پر بھی قابض ہوکر مزید دولت سمیٹے اور اس کے لیے کرپشن کا ہر راستہ اختیا ر کرے۔جب آئین کے اند ر یہ لکھا ہو کہ ملک کا حکمران او ر ایک غریب شخص دونوں دس مرلہ کے گھر کے مالک ہونگے اور ملک کا حکمران او ر اشرافیہ سینکڑوں کنالوں پر مشتمل رہائشیں نہیں رکھ سکیں گے تو پھر اس ملک یا معاشرے کا ایک فرد امیر تر اور دوسرے غریب نہیں ہوسکے گا،بلکہ معاشرے میں مساوات پیدا ہونگی اور اس معاشرے کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا اس کے مقابلے میں نظام کے ا ٓئین،سوچ یا روح میں ہی یہ بات ہوکہ مخصوص طبقے کو بالادستی دلوانا ہے،دولت او ر وسائل پر ایک طبقہ کو قبضہ کرنے کی کھلی چھٹی دے دینی ہے کہ وہ جس طرح سے جس قدر دولت چاہے اکٹھی کرے پھر اس دولت کے زریعے اقتدار میں آئے طاقت حاصل کرے اور دیگر تمام طبقات کو بنیادی ضروریات سے ہی محروم کردے اور ایک مخصو ص فرقے یا مذہب کے پیروکاروں کو حکومت کرنے کا حق ہے جبکہ دیگر تمام مذاہب کے ماننے والے چاہے ان میں جس قدر صلاحیت ہو وہ حکومت نہیں کرسکتے۔ایسے آئین یا سوچ پر بننے والے نظام کا حامل معاشرہ یاملک کس طرح ترقی کرسکے گا۔حضرت عمر ؓ کا فرمان ہے کفر کی حکومت رہ سکتی ہے مگر ظلم کی حکومت نہیں رہ سکتی،کیونکہ کافر تو اللہ یا اس کے نبی ﷺکو نہ مان کراور  ان کا انکارکرکے کافر ہوا ہے مگر ظالم جو چاہے کسی بھی مذہب،فرقے سے ہو اگر وہ معاشرے کے دوسرے افراد کے حقوق غصب کرکے دولت جمع کرتا ہے اور پھر اس دولت کے بل بوتے پر اقتدار اور طاقت حاصل کرکے محروم طبقات اور افراد کو اپنے سامنے جھکاتا ہے،چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے محروم طبقات اس کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں،یہ بات اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے کہ ان مخلوق میں سے کوئی اپنی ضروریات کے لیے اللہ تعالی ٰ جو خالق اور مالک ہیں انکو کے بجائے اور کسی سے مانگے یا امید رکھے،اس بنا پر حضرت علی ؓنے فرمایا تھا کہ کفر کی حکومت تو رہ سکتی مگرظلم کی حکومت نہیں رہ سکتی،ایک اور جگہ ان کا فرمان ہے جہاں دولت کے انبار دیکھوں یقین رکھوں کہ کسی کا حق مارا گیا ہے،کیونکہ دوسروں کا حق مارے بغیر کبھی دولت کے انبار نہیں جمع ہوسکتے۔اللہ تعالی ٰ ظلم کو سخت ناپسند کرتے ہیں اس وجہ سے اللہ کے برگزیدہ بندوں نے مخلوق خداکو ظلم سے نجات دلانے کے لیے ہمیشہ جدوجہد کی ہے حضرت آدم ؑسے لیکر حضرت محمد ﷺکی زندگیوں کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ تمام انبیاء نے ہمیشہ ظلم کے خلاف جدوجہد کی اور حضور اکرم ﷺنے تو اس جدوجہد کی تکمیل کی اور ایک مثالی عادلانہ معاشرہ قائم کیا جس میں تمام انسانوں کو یکسا ں حقوق حاصل ہوں۔ظلم سے انکار اور ظالم کے خلاف جدوجہد ہرپیغمبر کا خاصا رہاہے اورہر پیغمبر نے اپنی تعلیمات میں ظلم کے خلاف جدوجہدکادرس دیا ہے اور عملی طورپر بھی ظالم اورظلم کے نظام کے خلاف جدوجہد کی ہے،چاہے وہ حضرت موسی ؑہویا حضرت عیسیٰ ؑ،حضرت ابراہیم یا حضرت محمد ﷺسب نے اس کا عملی مظاہرہ دنیاکے سامنے پیش کیا،کوئی عیسائی اس وقت تک اچھا عیسائی نہیں بن سکتا جب تک وہ حضرت عیسی ٰ کی اصل تعلیمات پر عمل نہ کرے جس طرح حضرت عیسی ٰ نے ظلم اور ظالم کے خلاف جدوجہدکی تھی بالکل اس طرح سے وہ بھی ظلم اور ظالم کے خلاف جدوجہد نہ کرے ،اس طرح کوئی یہودی،سکھ،ہندو،پارسی،سوشلسٹ اسوقت تک اپنے مذہب اور عقیدے کا اصل پیروکار نہیں بن سکتا جس طرح اس کے پیغمبر یا بڑے لیڈر جس کی وہ پیروی کررہے ہیں انھوں نے ظلم ظالم کے خلاف جدوجہد کی ویسی جدوجہد نہ کرے۔مذہب صرف مذہبی عبادات کو اداکرنے کا نام نہیں ہوتا بلکہ اسکے مطابق زندگی گزارنے سے ہی وہ شخص اس مذہب کا اصل پیروکا ر بن سکتاہے۔کوئی بھی مذہب یا پیغمبر کسی پر ظلم کرنے یا ظالم کا ساتھ دینے کی تعلیمات نہیں دیتا۔تمام مذاہب میں اگر کوئی مشترکہ قدر یا بات پائی جاتی ہے تو وہ ظالم کے خلاف جدوجہدکی تعلیمات ہیں اور ان مذاہب کے بڑوں کا عملی طور پر اس جدوجہد کا حصہ بن کر یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی مذہب ظلم کی اجازت نہیں دیتا۔چاہے وہ عیسائیت ہو یا یہودیت،ہندومت ہو یا بدھ مت،پارسی ہویا کارل مارکس کے ماننے والے سوشلسٹ اورجہاں تک اسلام کا تعلق ہے تواسلام سب سے بڑھ کر ظلم کے خلاف ہے۔اسلام نہ ظلم کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ظلم سہنے کی۔قرآن میں حکم ہوتا ہے مسلمان نہ تو ظلم کرتا ہے اور نہ ظلم سہتا ہے۔ہمارے معاشرہ جو طبقاتی تقسیم کے نتیجہ میں معرض وجو د میں آنے والا ایک معاشرہ ہے اس میں ظلم سہنے کو بہادری سمجھا جاتا ہے جبکہ درحقیقت ظلم سہنے سے ظالم کے حوصلہ مزید بلند ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے اگر آج ایک شخص میرے ظلم پر خاموش ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی میرے خلاف بولنے کی جرآت نہیں کرسکتا جس کے نتیجہ میں وہ مزید ظلم کرنے لگتا ہے،اپنی دولت کے بل بل بوتے پر اقتدار اور طاقت حاصل کر تا ہے اور دوسروں کے حقوق پر پہلے سے زیادہ دیدہ دلیری سے قابض ہونا شروع ہوجاتا ہے۔پھر معاشرے کے محروم طبقات اپنی چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے بھی اس کے سامنے جھکنے اور اس سے مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں،اس پر جہاں وہ محروم طبقات کو ان کے جائز حقوق سے محروم کرکے اور ان کی ضروریات کے لیے ان کو اپنے سامنے جھکا کر شرک کرانے کا مرتکب ہوتا ہے وہیں پر وہ طبقات جو اس سے چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے دست سوال کرتے ہیں اوراللہ کو چھوڑ کر اس سے امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں وہ شرکت کرنے کے گناہگا ر ہوتے ہیں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے شرک کرنے اور کرانے دونوں سے منع فرمایا ہے کہ نہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکو اور نہ کسی کو اپنے سامنے جھکاؤ،اسلام نے تو ظلم کے خلاف جدوجہد فرض قرار دی ہے۔آج اگر ہم تمام مذاہب کی یہ مشترکہ قدر اٹھالیں اور پاکستانیت اور قومیت کی بنیاد پر اٹھ کھڑے ہوں تو دنیا کا کوئی ظالم ہم پاکستانیوں کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا۔چاہے وہ ظالم کوئی نظام ہویا کوئی شخص۔ہم مذہب،فرقوں،گرہوں کی بنیاد پر چھوٹی چھوٹی باتوں کو وجہ بنا کر ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہتے ہیں مگر جو مسلمان،ہندو،عیسائی،یہودی،بدھ مت،سوشلسٹ سب کا دشمن ہے او ر اس کا نظریہ ایک ہی ہے کہ ان سب مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق کو کس طر ح سے غصب کرکے اپنی دولت میں اضافہ کیا جائے،ان کو صاف پانی،صحت مند خوراک،تعلیم،صحت،رہائش غرض ہر بنیاد ی ضروت سے محروم کردیا جائے تاکہ وہ بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اُس ایک فیصد طبقہ کے طرف دیکھنے پر مجبور ہوجائیں اور اس کے سامنے جھکیں پھر ہی وہ ان کی کچھ ضروریات پوری کردے گا۔یہ بہت تلخ حقائق ہیں اور اس کا انکشاف ان کے اپنے ادارے کررہے ہیں کہ پوری دنیا کی نصف دولت اور وسائل پر ایک فیصد کا قبضہ ہے جبکہ بقیہ آدھی سے بھی کم دولت اور وسائل ننانوے فیصد کے پاس ہیں اسی کاایک نتیجہ ہے کہ دنیا میں ایک ارب کے قریب لوگ بھوک کا شکا ر ہیں جنہیں مناسب خوراک دستیاب نہیں یا وہ ایک وقت کھانا کھاتے ہیں اور دو وقت بھوکے رہتے ہیں،دنیا کی آبادی اس وقت سات ارب ساٹھ کروڑ سے زائد ہے ہر سات میں سے ایک آدمی بھوک کا شکار ہے۔ہر سکینڈ امیں ایک آدمی بھوک سے مررہا ہے،ہر پانچ سیکنڈ میں پانچ سال سے کم عمر کا ایک بچہ بھوک سے مرتا ہے،یہ وہ اعداد و شما ر ہیں جو ان کے اپنے ادارے بیان کررہے جبکہ حقائق اس سے کہیں زیادہ ہیں،مسلمانوں کی جب دنیا بھر میں حکومت تھی تو ایک شخص بھی بھوک سے مرتا تو وہ حاکم وقت یا نظام اس کے لیے خود کو ذمہ دار سمجھتا تھا اسی وجہ سے حضرت عمر فاروق ؓنے فرمایا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مرجائے تو ڈر ہے کہ قیامت والے دن عمر(نظام) سے پوچھ ہوگی اور آج جب پوری دنیا میں سرمایہ دارنہ نظام حاوی ہے اور ان کی حکومت ہے تو ایک ارب انسان کیوں بھوک کا شکار ہیں۔

جب دنیامیں یا کسی ملک یا معاشرے میں ایک فیصد مرعات یافتہ طبقہ وسائل او ر دولت پر قابض ہو اور بقیہ ننانوے فیصد اپنی جائز ضروریات کے لیے اس کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور جھکنے پر مجبور ہوں تو ایسے نظام کی تبدیلی کے بغیر انسانیت کی ترقی کیسے ممکن ہے۔قرآن پاک میں تو ارشاد ہوتا ہے تم میں سے بہترین وہ جو دوسرے انسانوں کے لیے مفید ہو۔اگر ہم انسانیت اور دوسرے انسانوں کے لیے مفید نہیں ہیں یا دوسروں کو فائدہ نہیں دے سکتے تو ہم بہترین قوم کیسے بنیں گے،اس کے لیے ہم سب پاکستانیوں کو مذہب،رنگ و نسل صوبے،فرقے کے اختلاف سے بالاتر ہوکر متحد ہونا ہوگا اور ظلم کے اس نظام کو پہلے اپنے معاشرے اور ملک اور پھر عالمی سطح پر تبدیل کرکے اس کی جگہ عدل کا سیاسی نظام لانا ہوگا جس میں کوئی انسان بھوک کا شکار نہ ہواور سب کو اپنی ضروریات حاصل ہوں پھر ہی ہم ایک بہترین قوم اور امت بن سکتے ہیں۔








Post a Comment

0 Comments