How to Change System - تبدیلی نظام کیسے (3)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو پوری دنیا پر ظلم کے نظام کا غلبہ تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے جس نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کی،نمروداور اس کے نظام سے ٹکر لی جس کی پاداش میں نمرود آپ علیہ اسلام کا دشمن ہوگیا تھا اور آپ علیہ اسلام  کو آگ تک میں پھینکوایا گیا مگر اللہ کی مد د اور نصرت سے آپ علیہ اسلام آگ سے صحیح سلامت نکل آئے اورآگ آپ علیہ اسلام کا بال تک بھیگا نہ کرسکی تھی۔بعد میں حضرت ابراہیم علیہ اسلام  نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور اللہ رب العزت سے اپنی اولا د میں پوری دنیا میں ظلم سے نجات دلانے والا پیغمبر کی دعا کی،یہ دعا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں پوری ہوئی اور جس نظام کی جدوجہد حضرت ابراہیم علیہ اسلام سمیت تمام انبیا ء نے کی اس کی تکمیل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی۔ہم میں سے بہت افراد انبیاء کی دنیا میں تشریف آوری کے مقصد کو صرف زبانی اللہ کی واحدنیت اور اس کے نبی کی رسالت سے تعبیرکرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس دور کے ظالم بادشاہ نے زبانی طور پر اللہ کی واحدنیت اور اس پیغمبر کی رسالت یا نبوت کا اقرار نہیں کیا اس وجہ سے اس دور کے نبی نے اس ظالم کے خلاف جس حد تک ممکن تھا جدوجہد کی،مگر حقیقت میں کبھی بھی زبانی اقرار کا جھگڑا تو رہا ہی نہیں ہے۔ہر دور کا نبی یہ پیغام لے کر آیا ہے کہ اللہ کی واحدنیت کا اقرار اس طرح کرو کہ ظلم کا نظام چھوڑ دو،تما م انسانوں کو برابر سمجھو،سب کے حقوق یکساں اور ایک جیسے اداکرو ان میں چھوٹے بڑے یا غریب و امیر کی تفریق نہ کرو،پھر ہی دنیا و آخرت میں تمھاری کامیابی ہے،اگر بات نظام کی تبدیلی کی نہ ہوتی تو اس دور کے ظالم اور نبی  کے درمیان اتنے اختلافات ہی نہ ہوتے۔زبانی اقرار کرنے کو تو بہت سے لوگ دنیا میں تیار ہوجاتے ہیں مگر اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اس کو اللہ کی واحدنیت کا عملی طور پر اظہار کرنا پڑتا ہے کہ وہ نہ خود شرک کرے اور نہ کسی کو شرک پر مجبور کرے۔شرک کا عملی طور پر اظہاردولت اور وسائل کو جمع کرکے اس کے بل بوتے پر طاقت اور اقتدار حاصل کرنا ار پھر لوگوں کو مجبور کرنا کہ وہ اللہ کے در پر آنے اور اللہ سے مانگنے کے بجائے مجھ سے اپنی ضروریات طلب کریں اور امیدیں رکھیں،یہ شرک کی عملی شکل ہے۔۔اللہ کے سوا کسی انسان،بت،نظام،کسی سے بھی اپنی حاجات مانگنا اور امیدیں رکھنا شرک میں آتا ہے۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا پر تشریف لانے کے وقت قیصر روم اور کسری ٰ ایران ظلم کے نظام کے دو بڑے نمائندے تھے اور بڑے پیمانے پر دنیا کے وسائل پر قابض ہوکر مخلوق خدا کو غلام بنا رہے تھے،مکہ اور عرب میں ابو جہل اور ابو لہب کی شکل میں اس کے ظلم کے نظام کے نمائندے موجود تھے۔جنھوں نے اللہ کے گھر (خانہ کعبہ) کو بتو ں سے بھر دیا تھا،بعض روایا ت کے مطابق کعبہ میں 360بت تھے،انہی بتوں کے نام پر وہ لوگوں سے چڑھاوے (ٹیکس) لیتے تھے کہ یہ فلاں بت کا ہے اور یہ فلاں بت کا،معاشرے میں مکمل طور پر طبقاتی تقسیم تھی،ایک طرف سرداران ِمکہ جن میں ابو جہل، ابولہب،عتبہ،شیبہ اور دوسر ے سردار تھے جبکہ دوسری طرف مکہ کے غریب غربا اور پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھنے والے جو محنت مزدوری کرتے تو سرداران مکہ ان سے بتوں کے نام پر ان کے حق میں سے حصہ لے لیتے تھے۔دولت کی اس غیر منصفانہ نظام اور معاشرتی طبقات کی تقسیم نے اس معاشرے میں بہت سی برائیاں ویسے ہی پیدا کردی تھی جو اس طرح کے معاشروں کا خاصا ہوا کرتی ہیں جن میں جھوٹ،چوری،شراب نوشی،غیرت کے نام پر قتل،بچیوں کے ساتھ ظلم شامل ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد عبداللہ ان کی پیدائش سے قبل جبکہ والد آمنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے تھوڑا عرصہ بعد وفات پاگئی تھیں،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے کچھ عرصہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی لیکن اس کے بعد وہ بھی انتقال کرگئے۔جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کا ذمہ لیا اور ساری زندگی اس کو نبھایا۔آپ ﷺجب جوان ہوئے تو اس طبقاتی معاشرے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انفرادی خوبیاں کھل کر سامنے آئیں اورلوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق اور امین کے لقب سے جاننے اور پکارنے لگے۔اس دوران غار حرا میں  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طبقاتی تقسیم اور مکہ کے معاشرے پر غور و فکر کرتے رہتے تھے۔چالیس برس کی عمر میں ایک دن غار حرا میں جبرائیل امین آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نوید سنائی کہ آپ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورہ علق کی ابتدائی آیات سنائیں۔اس واقعہ کے بعد  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے رہنے والوں کو ایک اللہ کے اقرار اور اس کی واحدنیت کے عملی اظہار طبقاتی نظام کو ختم کرکے سب انسانوں کو یکساں حقوق دینے کی دعوت دی اس نظام میں آنے کا کہا جو اللہ کا سچا نظام ہے جس میں دنیا اور آخرت کی بھلائی اور سلامتی ہے۔اس پر سرداران مکہ اور اشرافیہ کا طبقہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہوگیا کہ  جن لوگوں کو ہمارے باپ دادا نے ہمیشہ کمتر سمجھا اور جو رتبے میں ہم سے کم ہیں  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کوہمارے برابر لانے کی بات کررہے ہیں اور جو نظام ہمارے بڑوں نے قائم کیا کہ معاشرے میں کچھ لوگ بڑے ہوتے ہیں اور کچھ چھوٹے،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نظام کو ختم کرنے کی بات کررہے ہیں۔انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روکنے کی بھر پور کوشش کی،انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑانا شروع کردیا کہ ایک شخص صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمار ا نظام تبدیل کرے گا۔لوگوں کو منع کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات ہی نہ کریں،مکہ کے آوارہ لوگو ں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے لگا دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنگ کریں اور جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی طرح نہ روک سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سماجی لاتعلقی کا اعلان کردیا۔اس تمام عرصہ کے دوران کچھ لوگوں نے آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے اس نظام کا حصہ بننے کا اقرار کرلیا جو تمام عالم کے لیے بہتری اور نجات کا ہے۔سردارن مکہ نے جب کچھ لوگوں کو اس نظام کا اقرار کرتے دیکھا تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  او ر آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں کو طرح طرح کی تکالیف دیں۔حضرت سمعیہ ؓکو تشدد کرکے شہید کردیا،حضرت بلا ل حبشی ؓ کو تپتی ریت پر لیٹاتے رہے مگر تمام تر تشدداور ظلم و زیادتی کے مقابلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدم تشدد کی حکمت عملی اپنائی،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساتھیوں کو بھی اس دوران کسی قسم کی کاروائی سے منع کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی  حکمت عملی طاقت بناؤ اور طاقت بچاؤ کی تھی،سردار ان مکہ کی کوشش تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم او ر ساتھی(صحابہ) جواب میں بھی اس طر ح کی کوئی کوشش کریں تاکہ وہ لوگوں کو اس نظام کا حصہ بننے سے روک سکیں کہ یہ سب کسی خاص مقصد کے لیے کررہے ہیں اور ان کا نظام قائم ہونے کے بعد وہ (معاذاللہ) لوگوں پر ظلم کریں گے۔مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حکمت عملی ناکام بنا دی۔پھر مجبور ہوکر انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت کہ آپ جو چاہتے ہیں ہم دینے کے لیے تیار ہیں مگر ہمارے نظام کو ختم نہ کریں۔آ پ مکہ کی جس خوبصورت عورت سے شادی /دولت یا اس نظام میں کوئی بڑا عہد ہ یا حکمرانی جو چاہیے دیں گے  مگر آپ نے ان کو یکسر رد کردیا اور کہا کہ تمھار ا اپنا دین اور نظام ہے اور میرا اپنا دین اور نظام،کسی صورت ظلم کے اس نظام کا حصہ نہیں بن سکتا۔اس کے بعد جب سرداران مکہ کی ظلم و زیادتیاں بڑھنے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت کا فیصلہ کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں کو پہلے ہی مدینہ روانہ کردیا اور خود آخر میں حضرت علیؓ کو اہلیان مکہ کی امانتیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھیں وہ ان کے حوالے کرکے مدینہ روانہ ہوئے۔مدینہ میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عملی طور پر نظام قائم کرنے کا موقع ملا۔اہلیان مدینہ جو مختلف قبائل اور گرہوں میں بکھرے ہوئے تھے اور اس بنا پر ان میں لڑائی جھگڑے بھی معمول تھے۔اُ ن سب قبائل جن میں یہود،مدینہ کےبت پرست اور مسلمان شامل تھے سب کو اکٹھا کیا اُ ن کو ایک قوم او ر امت قرار دیا، ان سب کے مابین ایک معاہدہ کرایا جس کو میثاق مدینہ کہا جاتا ہے۔اس کے تحت مدینہ کے حدود میں رہنے والے سب ایک قوم ہیں،باہر سے آکر کوئی بھی مدینہ کے کسی قبیلے یا فرد پر حملہ کرتا ہے تو سب  کے خلاف حملہ تصور ہوگا اور سب مل کر اس کامقابلہ کریں گے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کے بادشاہ اور آخر ی فیصلہ کرنے والی شخصیت ہونگے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدل کی بنیاد پر مدینہ میں وہ ریاست قائم کی کہ اردگرد کے قبائل حیران رہ گئے۔اس تمام صورتحال پر سرداران مکہ تلملا اٹھے۔انھوں نے مدینہ کی ریاست اور عدل کے اس نظام کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا،بدر کے مقام پر سردار ان مکہ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں اور کفار  کی پہلی جنگ ہوئی جس میں سرداران مکہ کے نامی گرامی سردار مارے گئے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی،اس فتح سے دیگر قبائل پر بھی مسلمانو ں کی دھاک بیٹھ گئی اور وہ بھی مسلمانوں کے دین اور نظام میں داخل ہونے لگے،دوسری طرف سرداران مکہ نے اس شکست کا بدلہ لینے اور پھر جنگ کا فیصلہ کیا،اُحد کے مقام پر دونوں فریقین کے مابین جنگ ہوئی ابتداء میں مسلمان فتح حاصل کرچکے تھے اور سرداران مکہ او رقریش کی فوج کے پاؤں اُ کھڑ گئے تھے،مگر مسلمانوں کے ایک دستے نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پر اُ س طرح عمل نہ کیا جس طرح کا حکم تھا اس مسلمانوں کو وقتی نقصان کا سامنا کرنا پڑا،اس جنگ کے بعد سرداران مکہ نے ایک بار پھر جنگ کا فیصلہ کیا،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساتھیوں کی مشاورت سے اس بار حکمت عملی تبدیلی کردی اور خندق  کھودنے کا فیصلہ کیا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حکمت عملی کے باعث سردار ان مکہ کو ناکا م لوٹنا پڑا۔غزوہ خندق کے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالی ٰ نے ایسے اسباب پیدا کردئیے کہ سرداران مکہ کو اللہ اور اس کے کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین اور نظا م جس میں تمام عالم کی نجات اور کامیابی ہے کوتسلیم کرنا پڑااور صلح حدیبیہ کا تاریخی واقعہ پیش آیا،صلح حدیبیہ کا یہ فائدہ ہوا کہ دیگر قبائل جو ابھی تک محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس نظام میں داخل نہ ہوئے تھے اُن کو بھی اس دین اورنظام کو سمجھنے کا موقع ملا اور بڑی تعداد میں دین اسلام میں داخل ہونے لگے۔صلح حدیبیہ کو اللہ تعالی ٰ نے قرآن پاک میں فتح مبین قرار دیا اور سورہ نصر نازل فرمائی تھی،صلح حدیبیہ کے کچھ عرصہ کے بعد مکہ میں اللہ تعالی ٰ کا نظام پوری طرح سے نافذ ہوگیا تھا اور ظلم کے نظام کا خاتمہ ہوگیا،بے شک ظلم مٹنے  کے لیے ہی ہوتا ہے،تبدیلی نظام کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کردیا اور بڑی تعداد میں لوگ اللہ کے نظام کا حصہ بنتے گئے،اپنے وصال سے قبل آخری حج کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا بھر کے لیے انسانیت کا وہ معیار مقرر کر دیا جو قیامت تک رہے گا کہ کسی عربی کو عجمی پر،کسی عجمی کو عربی پر،کسی کالے کوکسی گورے پر،کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل نہیں،برتری اگر حاصل ہے تو وہ صر ف تقوی ٰ کی بنیاد پر ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے بعد ان کے تربیت یافتہ ساتھیوں (صحابہ) نے اللہ کے عدلانہ نظام کو عالمی سطح پر قائم کرنے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور ظلم کے نظام کو عالمی سطح پر تبدیل کرتے ہوئے عدل کا نظام قائم کیا،ظلم  کے نظام کے بڑے نمائندوں قیصر روم اور کسری ٰ ایران کی حکومتوں کا خاتمہ بھی ہوا ور اللہ کا نظام پوری دنیا پر غالب آگیا۔
  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کے وہ واحد شخصیت تھے جنھوں نے ایک نظریہ جو اللہ تعالی ٰ کی طرف سے نازل ہوا تھا ا ُ س نظریہ کے مطابق تبدیلی کے کر آئے اور اپنی زندگی میں ہی عدل کا ایک سیاسی او ر معاشرتی نظام قائم کیا،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی دنیا میں انقلابات او ر تبدیلیاں آئیں مگر وہ کسی خاص شعبہ زندگی کو ہی تبدیل کرسکے،کسی نے  معاشی نظام تبدیل کیا تو کوئی سیاسی نظام تبدیل کرسکا،دنیا میں کوئی کُلی اور مکمل انقلاب جس نے سیاست سے لیکر معیشت،مادی امور سے لیکر روحانی ہر شعبہ زندگی میں تبدیلی لایا تو وہ انقلاب محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انقلاب تھا،اس انقلاب میں  برے رسم و رواج اور ظلم کو تو تبدیل کردیا مگر جہاں پر پہلے سے اچھی روایات تھیں ان کو نہ چھیڑا،دنیا میں بعد میں آنے والے انقلابات نے بھی وہ طریقے اختیار کیے جو کسی بھی انقلاب کے لازمی اجزا ء ہوتے ہیں۔سب سے قبل ایک نظریہ،اس کے بعد اس نظریہ کے مطابق افراد کی ذہن سازی کرنا،ایک ایک فرد کی تربیت کرکے جماعت تیار کرنا،تشدد کے مقابلے میں عدم تشدد کی حکمت عملی اختیار کرنا یعنی طاقت بناؤ اور طاقت بچاؤ کی پالیسی،ظلم کے نظام سے آغاز میں ہی براہ راست ٹکر نہیں لی جاتی بلکہ تربیت یافتہ ساتھیوں پر مشتمل ایک جماعت تیار کی جاتی ہے جب جماعت کی تعداد ایک مقرر حد تک پہنچ جائے جو د س،بیس،پچاس ہزار افراد پر مشتمل ہوسکتی ہے اور ان کی تربیت اور ذہن سازی درست نظریہ کے مطابق ہوتو پھر اس دور کے حالات کے مطابق ظلم کے نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا،کسی بھی انقلاب میں پوری قوم کی ذہن سازی اور تربیت ممکن نہیں ہوتی بلکہ ایک جماعت نظریہ کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہے وہ جماعت نظام قائم کرتی ہے،اس نظام اور حکومت کے تحت ادارہ جاتی بنیاد وں پر قوم کی تربیت کا انتظام کرتی ہے۔پہلے اپنے ملک یا ریاست میں عدل کا سیاسی نظام قائم کرتی ہے اور پھر پوری دنیا کی انسانیت کو ظلم کے نظام سے نکال کر عالمی سطح پر عدل کا نظام قائم کرتی ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انقلاب کے بعد دنیا میں جتنی بھی تبدیلیاں یا انقلاب آئے انھوں نے انقلاب کے بنیاد ی اصولو ں کو لازمی مدنظر رکھا چاہے وہ انقلاب روس ہو،انقلاب فرانس یا ایران کا انقلاب۔
اللہ تعالی ٰ نے کامیابی کے کچھ اصول مقر ر کرکے دنیا کے سامنے رکھ دئیے ہیں جو رہتی دنیا تک ہمیشہ رہیں گے،ان اصولو ں کا ذکر اللہ تعالی ٰ نے اپنی پیاری کتاب قرآن پاک میں سورۃ العصر اور سورۃ الکوثر میں بیان فرمایا ہے۔سورۃ العصر میں فرمایا جاتا ہے انسان خسارے میں ہے، نقصان میں ہے اور اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کرسکتا جب تک ان چار اصولوں پر عمل نہ کرے،پہلے ایک نظریہ تیار کرے،کاغذی کاروائی (پیپر ورک) کرے،پھر اس نظریہ پر عمل کرے،اُ س نظریہ کا پرچار کرے اس کو لوگوں میں پھیلائے اور پھر کامیابی تک صبر کرے،سورۃ الکوثر میں مزید دواصول بیان فرمائے کہ اس کا اللہ تعالی پر کامل ایمان ہو،اس کو اپنی کامیابی کے حوالے سے کوئی شک و شبہ نہ ہو،اللہ سے مدد مانگے،مال اور وقت کی قربانی دے،کامیابی کا یہ طریقہ (فامولا) جس کے چھ اجزاء ہیں، ایک نظریہ تیار کرنا، اس پر عمل کرنا،اس کو پھیلانا،کامیابی تک صبر،اللہ سے مدد مانگنا اس کی عبادت کرنا،مال اور وقت کی قربانی دینا،اس طریقے پر جس نے جس مقصد (چاہے و ہ کسی کاروبار میں کامیابی،تبدیلی نظام، انقلاب) کے لیے استعمال کیا وہ کامیا ب ہوا،اگر آج بھی کوئی نظام کی تبدیلی کے لیے اس طریقے (فامولا) پر عمل کرے گا تو وہ کامیا ب ہوگا۔۔سے قبل حضرت ابراہیم ؑنے جس نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کی،نمروداور اس کے نظام سے ٹکر لی جس کی پاداش میں نمبر آپ ؑکا دشمن ہوگیا تھا اور آپ ؑکو آگ تک میں پھینکوایا گیا مگر اللہ کی مد د اور نصرت سے آپؑ آگ سے صحیح سلامت نکل آئے اور آپ ؑکا بال تک بھیگا نہ کرسکی تھی۔بعد میں حضرت ابراہیم ؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور اللہ رب العزت سے اپنی اولا د میں پوری دنیا میں ظلم سے نجات دلانے والا پیغمبر کی دعا کی،یہ دعا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں پوری ہوئی اور جس نظام کی جدوجہد حضرت ابراہیم ؑ سمیت تمام انبیا ء نے کی اس کی تکمیل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی۔ہم میں سے بہت افراد انبیاء کی دنیا میں تشریف آوری کے مقصد کو صرف زبانی اللہ کی واحدنیت اور اس کے نبی کی رسالت سے تعبیرکرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس دور کے ظالم بادشاہ نے زبانی طور پر اللہ کی واحدنیت اور اس پیغمبر کی رسالت یا نبوت کا اقرار نہیں کیا اس وجہ سے اس دور کے نبی نے اس ظالم کے خلاف جس حد تک ممکن تھا جدوجہد کی،مگر حقیقت میں کبھی بھی زبانی اقرار کا جھگڑا تو رہا ہی نہیں ہے۔ہر دور کا نبی یہ پیغام لے کر آیا ہے کہ اللہ کی واحدنیت کا اقرار اس طرح کرو کہ ظلم کا نظام چھوڑ دو،تما م انسانوں کو برابر سمجھو،سب کے حقوق یکساں اور ایک جیسے اداکرو ان میں چھوٹے بڑے یا غریب و امیر کی تفریق نہ کرو،پھر ہی دنیا و آخرت میں تمھاری کامیابی ہے،اگر بات نظام کی تبدیلی کی نہ ہوتی تو اس دور کے ظالم اور نبی  کے درمیان اتنے اختلافات ہی نہ ہوتے۔زبانی اقرار کرنے کو تو بہت سے لوگ دنیا میں تیار ہوجاتے ہیں مگر اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اس کو اللہ کی واحدنیت کا عملی طور پر اظہار کرنا پڑتا ہے کہ وہ نہ خود شرک کرے اور نہ کسی کو شرک پر مجبور کرے۔شرک کا عملی طور پر اظہاردولت اور وسائل کو جمع کرکے اس کے بل بوتے پر طاقت اور اقتدار حاصل کرنا ار پھر لوگوں کو مجبور کرنا کہ وہ اللہ کے در پر آنے اور اللہ سے مانگنے کے بجائے مجھ سے اپنی ضروریات طلب کریں اور امیدیں رکھیں،یہ شرک کی عملی شکل ہے۔۔اللہ کے سوا کسی انسان،بت،نظام،کسی سے بھی اپنی حاجات مانگنا اور امیدیں رکھنا شرک میں آتا ہے۔
حضوراکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا پر تشریف لانے کے وقت قیصر روم اور کسری ٰ ایران ظلم کے نظام کے دو بڑے نمائندے تھے اور بڑے پیمانے پر دنیا کے وسائل پر قابض ہوکر مخلوق خدا کو غلام بنا رہے تھے،مکہ اور عرب اور ابو جہل اور ابو لہب کی شکل میں اس کے ظلم کے نظام کے نمائندے موجود تھے۔جنھوں نے اللہ کے گھر (خانہ کعبہ) کو بتو ں سے بھر دیا تھا،بعض روایا ت کے مطابق کعبہ میں 360بت تھے،انہی بتوں کے نام پر وہ لوگوں سے چڑھاوے (ٹیکس) لیتے تھے کہ یہ فلاں بت کا ہے اور یہ فلاں بت کا،معاشرے میں مکمل طور پر طبقاتی تقسیم تھی،ایک طرف سرداران ِمکہ جن میں ابو جہل، ابولہب،عتبہ،شیبہ اور دوسر ے سردار تھے جبکہ دوسری طرف مکہ کے غریب غربا اور پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھنے والے جو محنت مزدوری کرتے تو سرداران مکہ ان سے بتوں کے نام پر ان کے حق میں سے حصہ لے لیتے تھے۔دولت کی اس غیر منصفانہ نظام اور معاشرتی طبقات کی تقسیم نے اس معاشرے میں بہت سی برائیاں ویسے ہی پیدا کردی تھی جو اس طرح کے معاشروں کا خاصا ہوا کرتی ہیں جن میں جھوٹ،چوری،شراب نوشی،غیرت کے نام پر قتل،بچیوں کے ساتھ ظلم شامل ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد عبداللہ ان کی پیدائش سے قبل جبکہ والد آمنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے تھوڑا عرصہ بعد وفات پاگئی تھیں،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے کچھ عرصہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی لیکن اس کے بعد وہ بھی انتقال کرگئے۔جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کا ذمہ لیا اور ساری زندگی اس کو نبھایا۔آپ ﷺجب جوان ہوئے تو اس طبقاتی معاشرے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انفرادی خوبیاں کھل کر سامنے آئیں اورلوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق اور امین کے لقب سے جاننے اور پکارنے لگے۔اس دوران غار حرا میں  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طبقاتی تقسیم اور مکہ کے معاشرے پر غور و فکر کرتے رہتے تھے۔چالیس برس کی عمر میں ایک دن غار حرا میں جبرائیل امین آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نوید سنائی کہ آپ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورہ علق کی ابتدائی آیات سنائیں۔اس واقعہ کے بعد  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے رہنے والوں کو ایک اللہ کے اقرار اور اس کی واحدنیت کے عملی اظہار طبقاتی نظام کو ختم کرکے سب انسانوں کو یکساں حقوق دینے کی دعوت دی اس نظام میں آنے کا کہا جو اللہ کا سچا نظام ہے جس میں دنیا اور آخرت کی بھلائی اور سلامتی ہے۔اس پر سرداران مکہ اور اشرافیہ کا طبقہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہوگیا کہ  جن لوگوں کو ہمارے باپ دادا نے ہمیشہ کمتر سمجھا اور جو رتبے میں ہم سے کم ہیں  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کوہمارے برابر لانے کی بات کررہے ہیں اور جو نظام ہمارے بڑوں نے قائم کیا کہ معاشرے میں کچھ لوگ بڑے ہوتے ہیں اور کچھ چھوٹے،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نظام کو ختم کرنے کی بات کررہے ہیں۔انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکو روکنے کی بھر پور کوشش کی،انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑانا شروع کردیا کہ ایک شخص صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمار ا نظام تبدیل کرے گا۔لوگوں کو منع کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات ہی نہ کریں،مکہ کے آوارہ لوگو ں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے لگا دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنگ کریں اور جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی طرح نہ روک سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سماجی لاتعلقی کا اعلان کردیا۔اس تمام عرصہ کے دوران کچھ لوگوں نے آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے اس نظام کا حصہ بننے کا اقرار کرلیا جو تمام عالم کے لیے بہتری اور نجات کا ہے۔سردارن مکہ نے جب کچھ لوگوں کو اس نظام کا اقرار کرتے دیکھا تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  او ر آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں کو طرح طرح کی تکالیف دیں۔حضرت سمعیہ ؓکو تشدد کرکے شہید کردیا،حضرت بلا ل حبشی ؓ کو تپتی ریت پر لیٹاتے رہے مگر تمام تر تشدداور ظلم و زیادتی کے مقابلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدم تشدد کی حکمت عملی اپنائی،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساتھیوں کو بھی اس دوران کسی قسم کی کاروائی سے منع کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی  حکمت عملی طاقت بناؤ اور طاقت بچاؤ کی تھی،سردار ان مکہ کی کوشش تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم او ر ساتھی(صحابہ) جواب میں بھی اس طر ح کی کوئی کوشش کریں تاکہ وہ لوگوں کو اس نظام کا حصہ بننے سے روک سکیں کہ یہ سب کسی خاص مقصد کے لیے کررہے ہیں اور ان کا نظام قائم ہونے کے بعد وہ (معاذاللہ) لوگوں پر ظلم کریں گے۔مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حکمت عملی ناکام بنا دی۔پھر مجبور ہوکر انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت کہ آپ جو چاہتے ہیں ہم دینے کے لیے تیار ہیں مگر ہمارے نظام کو ختم نہ کریں۔آ پ مکہ کی جس خوبصورت عورت سے شادی /دولت یا اس نظام میں کوئی بڑا عہد ہ یا حکمرانی جو چاہیے دیں گے  مگر آپ نے ان کو یکسر رد کردیا اور کہا کہ تمھار ا اپنا دین اور نظام ہے اور میرا اپنا دین اور نظام،کسی صورت ظلم کے اس نظام کا حصہ نہیں بن سکتا۔اس کے بعد جب سرداران مکہ کی ظلم و زیادتیاں بڑھنے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت کا فیصلہ کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں کو پہلے ہی مدینہ روانہ کردیا اور خود آخر میں حضرت علیؓ کو اہلیان مکہ کی امانتیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھیں وہ ان کے حوالے کرکے مدینہ روانہ ہوئے۔مدینہ میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عملی طور پر نظام قائم کرنے کا موقع ملا۔اہلیان مدینہ جو مختلف قبائل اور گرہوں میں بکھرے ہوئے تھے اور اس بنا پر ان میں لڑائی جھگڑے بھی معمول تھے۔اُ ن سب قبائل جن میں یہود،مدینہ کےبت پرست اور مسلمان شامل تھے سب کو اکٹھا کیا اُ ن کو ایک قوم او ر امت قرار دیا، ان سب کے مابین ایک معاہدہ کرایا جس کو میثاق مدینہ کہا جاتا ہے۔اس کے تحت مدینہ کے حدود میں رہنے والے سب ایک قوم ہیں،باہر سے آکر کوئی بھی مدینہ کے کسی قبیلے یا فرد پر حملہ کرتا ہے تو سب  کے خلاف حملہ تصور ہوگا اور سب مل کر اس کامقابلہ کریں گے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کے بادشاہ اور آخر ی فیصلہ کرنے والی شخصیت ہونگے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدل کی بنیاد پر مدینہ میں وہ ریاست قائم کی کہ اردگرد کے قبائل حیران رہ گئے۔اس تمام صورتحال پر سرداران مکہ تلملا اٹھے۔انھوں نے مدینہ کی ریاست اور عدل کے اس نظام کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا،بدر کے مقام پر سردار ان مکہ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں اور کفار  کی پہلی جنگ ہوئی جس میں سرداران مکہ کے نامی گرامی سردار مارے گئے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی،اس فتح سے دیگر قبائل پر بھی مسلمانو ں کی دھاک بیٹھ گئی اور وہ بھی مسلمانوں کے دین اور نظام میں داخل ہونے لگے،دوسری طرف سرداران مکہ نے اس شکست کا بدلہ لینے اور پھر جنگ کا فیصلہ کیا،اُحد کے مقام پر دونوں فریقین کے مابین جنگ ہوئی ابتداء میں مسلمان فتح حاصل کرچکے تھے اور سرداران مکہ او رقریش کی فوج کے پاؤں اُ کھڑ گئے تھے،مگر مسلمانوں کے ایک دستے نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پر اُ س طرح عمل نہ کیا جس طرح کا حکم تھا اس  سےمسلمانوں کو وقتی نقصان کا سامنا کرنا پڑا،اس جنگ کے بعد سرداران مکہ نے ایک بار پھر جنگ کا فیصلہ کیا،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساتھیوں کی مشاورت سے اس بار حکمت عملی تبدیلی کردی اور خندق  کھودنے کا فیصلہ کیا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حکمت عملی کے باعث سردار ان مکہ کو ناکا م لوٹنا پڑا۔غزوہ خندق کے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالی ٰ نے ایسے اسباب پیدا کردئیے کہ سرداران مکہ کو اللہ اور اس  کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین اور نظا م جس میں تمام عالم کی نجات اور کامیابی ہے کوتسلیم کرنا پڑااور صلح حدیبیہ کا تاریخ واقعہ پیش آیا،صلح حدیبیہ کا یہ فائدہ ہوا کہ دیگر قبائل جو ابھی تک محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس نظام میں داخل نہ ہوئے تھے اُن کو بھی اس دین اورنظام کو سمجھنے کا موقع ملا اور بڑی تعداد میں دین اسلام میں داخل ہونے لگے۔صلح حدیبیہ کو اللہ تعالی ٰ نے قرآن پاک میں فتح مبین قرار دیا اور سورہ نصر نازل فرمائی تھی،صلح حدیبیہ کے کچھ عرصہ کے بعد مکہ میں اللہ تعالی ٰ کا نظام پوری طرح سے نافذ ہوگیا تھا اور ظلم کے نظام کا خاتمہ ہوگیا،بے شک ظلم مٹنے  کے لیے ہی ہوتا ہے،تبدیلی نظام کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کردیا اور بڑی تعداد میں لوگ اللہ کے نظام کا حصہ بنتے گئے،اپنے وصال سے قبل آخری حج کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا بھر کے لیے انسانیت کا وہ معیار مقرر کر دیا جو قیامت تک رہے گا کہ کسی عربی کو عجمی پر،کسی عجمی کو عربی پر،کسی کالے کوکسی گورے پر،کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل نہیں،برتری اگر حاصل ہے تو وہ صر ف تقوی ٰ کی بنیاد پر ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے بعد ان کے تربیت یافتہ ساتھیوں (صحابہ) نے اللہ کے عدلانہ نظام کو عالمی سطح پر قائم کرنے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور ظلم کے نظام کو عالمی سطح پر تبدیل کرتے ہوئے عدل کا نظام قائم کیا،ظلم  کے نظام کے بڑے نمائندوں قیصر روم اور کسری ٰ ایران کی حکومتوں کا خاتمہ بھی ہوا ور اللہ کا نظام پوری دنیا پر غالب آگیا۔
  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کے وہ واحد شخصیت تھے جنھوں نے ایک نظریہ جو اللہ تعالی ٰ کی طرف سے نازل ہوا تھا ا ُ س نظریہ کے مطابق تبدیلی کے کر آئے اور اپنی زندگی میں ہی عدل کا ایک سیاسی او ر معاشرتی نظام قائم کیا،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی دنیا میں انقلابات او ر تبدیلیاں آئیں مگر وہ کسی خاص شعبہ زندگی کو ہی تبدیل کرسکے،کسی نے  معاشی نظام تبدیل کیا تو کوئی سیاسی نظام تبدیل کرسکا،دنیا میں کوئی کُلی اور مکمل انقلاب جس نے سیاست سے لیکر معیشت،مادی امور سے لیکر روحانی ہر شعبہ زندگی میں تبدیلی لایا تو وہ انقلاب محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انقلاب تھا،اس انقلاب میں  برے رسم و رواج اور ظلم کو تو تبدیل کردیا مگر جہاں پر پہلے سے اچھی روایات تھیں ان کو نہ چھیڑا،دنیا میں بعد میں آنے والے انقلابات نے بھی وہ طریقے اختیار کیے جو کسی بھی انقلاب کے لازمی اجزا ء ہوتے ہیں۔سب سے قبل ایک نظریہ،اس کے بعد اس نظریہ کے مطابق افراد کی ذہن سازی کرنا،ایک ایک فرد کی تربیت کرکے جماعت تیار کرنا،تشدد کے مقابلے میں عدم تشدد کی حکمت عملی اختیار کرنا یعنی طاقت بناؤ اور طاقت بچاؤ کی پالیسی،ظلم کے نظام سے آغاز میں ہی براہ راست ٹکر نہیں لی جاتی بلکہ تربیت یافتہ ساتھیوں پر مشتمل ایک جماعت تیار کی جاتی ہے جب جماعت کی تعداد ایک مقرر حد تک پہنچ جائے جو د س،بیس،پچاس ہزار افراد پر مشتمل ہوسکتی ہے اور ان کی تربیت اور ذہن سازی درست نظریہ کے مطابق ہوتو پھر اس دور کے حالات کے مطابق ظلم کے نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا،کسی بھی انقلاب میں پوری قوم کی ذہن سازی اور تربیت ممکن نہیں ہوتی بلکہ ایک جماعت نظریہ کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہے وہ جماعت نظام قائم کرتی ہے،اس نظام اور حکومت کے تحت ادارہ جاتی بنیاد وں پر قوم کی تربیت کا انتظام کرتی ہے۔پہلے اپنے ملک یا ریاست میں عدل کا سیاسی نظام قائم کرتی ہے اور پھر پوری دنیا کی انسانیت کو ظلم کے نظام سے نکال کر عالمی سطح پر عدل کا نظام قائم کرتی ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انقلاب کے بعد دنیا میں جتنی بھی تبدیلیاں یا انقلاب آئے انھوں نے انقلاب کے بنیاد ی اصولو ں کو لازمی مدنظر رکھا چاہے وہ انقلاب روس ہو،انقلاب فرانس یا ایران کا انقلاب۔
اللہ تعالی ٰ نے کامیابی کے کچھ اصول مقر ر کرکے دنیا کے سامنے رکھ دئیے ہیں جو رہتی دنیا تک ہمیشہ رہیں گے،ان اصولو ں کا ذکر اللہ تعالی ٰ نے اپنی پیاری کتاب قرآن پاک میں سورۃ العصر اور سورۃ الکوثر میں بیان فرمایا ہے۔سورۃ العصر میں فرمایا جاتا ہے انسان خسارے میں ہے، نقصان میں ہے اور اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کرسکتا جب تک ان چار اصولوں پر عمل نہ کرے،پہلے ایک نظریہ تیار کرے،کاغذی کاروائی (پیپر ورک) کرے،پھر اس نظریہ پر عمل کرے،اُ س نظریہ کا پرچار کرے اس کو لوگوں میں پھیلائے اور پھر کامیابی تک صبر کرے،سورۃ الکوثر میں مزید دواصول بیان فرمائے کہ اس کا اللہ تعالی پر کامل ایمان ہو،اس کو اپنی کامیابی کے حوالے سے کوئی شک و شبہ نہ ہو،اللہ سے مدد مانگے،مال اور وقت کی قربانی دے،کامیابی کا یہ طریقہ (فامولا) جس کے چھ اجزاء ہیں، ایک نظریہ تیار کرنا، اس پر عمل کرنا،اس کو پھیلانا،کامیابی تک صبر،اللہ سے مدد مانگنا اس کی عبادت کرنا،مال اور وقت کی قربانی دینا،اس طریقے پر جس نے جس مقصد (چاہے و ہ کسی کاروبار ،تبدیلی نظام، انقلاب) کے لیے استعمال کیا وہ کامیا ب ہوا،اگر آج بھی کوئی نظام کی تبدیلی کے لیے اس طریقے (فامولا) پر عمل کرے گا تو وہ کامیا ب ہوگا۔۔

Post a Comment

0 Comments